جمعرات, مارچ 30, 2023
ہومبلاگتیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ...

تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں؟؟

گذشتہ ایک صدی کے دوران تیل اور توانائی کے ذرائع پر کنٹرول نے دنیا میں جنگوں کو جنم دیا، مختلف ممالک کو غیر متوقع اتحاد کرنے پر مجبور کیا اور متعدد سفارتی تنازعات کو جنم دیا ہے۔

مگر اب دنیا کی دو بڑی معیشتیں ایک اور اہم اور قیمتی ٹیکنالوجی پر لڑ رہی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی ’سیمی کنڈیکٹرز‘ ہیں، وہ چھوٹی مائیکرو چِپ جو ہماری روز مرہ زندگی کا اہم ترین جزو بن چکی ہے۔

سیلیکون سے بنی یہ چھوٹی چھوٹی چپس 500 ارب ڈالر کی بڑی صنعت کا دل ہیں۔ اور اس صنعت کا حجم سنہ 2030 تک دگنا ہونے کی توقع ہے۔ اور ماہرین کے مطابق جو ملک بھی ان مائیکرو چپس کی سپلائی چین کا انتظام سنبھالے گا وہ دنیا کی سپر پاور بن جائے گا۔

چین ان مائیکرو چپس کو بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ جس کے پاس یہ ٹیکنالوجی پہلے سے موجود ہے چین کو دنیا سے دور اور الگ تھلگ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

ہتھیاروں کی اس روایتی دوڑ میں جہاں جہازوں اور میزائلوں کی زیادہ تعداد میں تیاری ہے وہی یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے الگورتھم کے معیار پر بھی ہے جو عسکری سسٹمز میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘

مگر اس وقت یہ جنگ امریکہ جیت رہا ہے لیکن چین کے خلاف مسلط کی گئی مائیکرو چِپ کی یہ جنگ دنیا کی معیشت کو بدل رہی ہے۔

مائیکرو چپ کی تیاری

ایک آئی فون میں مائیکرو چِپ ہوتی ہے جسے امریکہ میں ڈیزائن اور تائیوان، جاپان اور جنوبی کوریا میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے چین میں اسمبل کیا جاتا ہے۔

انڈیا جو اس صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سیمی کنڈیکٹرز امریکہ میں ایجاد کیے گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیا ان کی تیاری کا مرکز بن گیا اور اس کی وجہ وہاں کی حکومتوں کی اس صنعت کے لیے مراعات اور سبسڈیز تھی۔

اس نے واشنگٹن کو سرد جنگ کے دوران روسی اثر و رسوخ کے خطرے سے دوچار خطے میں کاروباری تعلقات اور سٹریٹجک اتحاد کو فروغ دینے میں مدد دی ہے۔ اور یہ آج بھی ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظربہت مفید ہیں۔

امریکہ چین کو کیسے روک رہا ہے؟

امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ مائیکرو چپ ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

گذشتہ سال اکتوبر میں، واشنگٹن نے اس ضمن میں وسیع پیمانے پر سخت اختیارات یا کنٹرولز کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لیے مائیکرو چپس، ان کو بنانے والی مشینیں، یا امریکی ٹیکنالوجی پر مشتمل پروگرام چین کو برآمد کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی کیوں نہ ہوں۔

امریکہ نے اپنے شہریوں یا امریکی رہائشیوں کو چین کی بعض فیکٹریوں میں مائیکرو چپس کی ’تیاری و پیداوار‘ کی حمایت کرنے سے بھی منع کیا۔

امریکہ کی اس پالیسی نے طاقتور ایشیائی ملک چین کو بہت نقصان پہنچایا ہے کیونکہ اس کی تیزی سے اُبھرتی ہوئی چپ انڈسٹری کا انحصار درآمد شدہ ہارڈ ویئر اور انسانی صلاحیتوں پر ہے۔

’ٹریویم چین‘ میں پالیسی ریسرچ تجزیہ کار لنگھاؤ باؤ کا کہنا ہے کہ ’اس شعبے میں ٹیلنٹ بہت اہم ہے۔ اگر آپ چینی سیمی کنڈکٹر کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کو دیکھیں تو ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس امریکی پاسپورٹ ہیں، وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس ملک میں تعلیم حاصل کی ہے یا ان کے پاس گرین کارڈ ہیں۔ یہ چین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

امریکہ اپنے ملک میں بھی زیادہ مائیکرو چپس تیار کرنا چاہتا ہے۔ چپس اور سائنس لا کے تحت امریکہ میں ہی چپس تیار کرنے والی کمپنیوں کو 53 ہزار ملین ڈالرز کی گرانٹس اور سبسڈیز دی گئیں ہیں۔

اس کا فائدہ ٹی ایم ایس سی جیسی بڑی کمپنیاں اٹھا رہی ہیں، جو کہ تائیوان سے باہر پہلی بار 40 ارب ڈالرز کے دو پلانٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

مذید پڑھیں

ریاست یا سیاست؟

مزید پڑھیں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول ترین