بدھ, جون 7, 2023
ہوماہم خبریںوہ ویڈیو کال میں برہنہ ہونے کا مطالبہ کرتا تھا

وہ ویڈیو کال میں برہنہ ہونے کا مطالبہ کرتا تھا

’وہ مجھے کہتا تھا کہ ویڈیو کالز پر برہنہ سامنے آؤ۔ میں جب انکار کرتی تھی تو وہ کہتا تھا کہ میں خود کو نقصان پہنچاؤں گا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس نے میری ویڈیو کالز کے سکرین شاٹس لے لیے ہیں۔ اس کے بعد وہ مجھے بلیک میل کرنے لگا۔‘

یہ بیان کراچی کی شازیہ (فرضی نام) نے ایک مقامی عدالت میں ایک مقدمے میں قلمبند کرایا ہے جس کی بنیاد ان کی جانب سے ایف آئی اے میں درج کروائی گئی ایک ایف آئی آر ہے۔ تحقیقات کے بعد یہ کیس عدالت میں ہے۔

شازیہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کی عرفان (فرضی نام) سے آن لائن دوستی ہوئی اور پھر ان کو شادی کی آفر کی گئی۔ دونوں کے خاندانوں کا فون پر رابطہ بھی ہوا۔

تاہم شازیہ کے بیان کے مطابق ’کچھ دنوں کے بعد اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔ وہ روزانہ ویڈیو کال میں برہنہ ہونے کا مطالبہ کرتا تھا۔‘

شازیہ کے مطابق ’اس کے بعد عرفان نے میری والدہ، بہن اور بھائی کو فون کر کے بد اخلاقی کی جس کے بعد میں نے شادی سے انکار کر دیا۔‘

شازیہ کے مطابق بعد میں عرفان نے ان کو ملتان آنے کو کہا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کر دے گا۔ مگر شازیہ نے ملتان جا کر عرفان سے شادی کر لی۔

ان کے مطابق ’عرفان نے مجھے بتایا کہ نکاح نامہ بعد میں دوں گا۔‘

ان کے مطابق وہ جب واپس کراچی آ گئیں تو ’چند دنوں کے بعد اس نے کہا نکاح جعلی ہے۔ اس کے بعد اس نے فیس بک پر ایک جعلی آئی ڈی بنائی، جس پر برہنہ تصاویر شیئر کر دیں۔ میں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا اور بطور ثبوت تصاویر پیش کیں۔‘

برداشت کی حدود کراس ہوچکی ہیں

مہوش حیات کہتی ہیں کہ کردار کشی کی وجہ سے انھیں عدالت کے دروازے تک پہنچنا پڑا کیونکہ ان کی ’برداشت کی تمام حدود پار ہوچکی ہیں۔‘ ان کے مطابق جس طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں اس سے انھیں اور ان کے خاندان کو شدید تکلیف اور اذیت سے گزرنا پڑا۔

ان کے مطابق ’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے بیمار ذہن کے لوگوں موجود ہیں جنھوں نے اداکاروں کی کردار کشی کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میرا متعلقہ حکام سے سوال ہے کہ کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔‘

مہوش حیات کہتی ہیں کہ ’ان بیمار ذہن لوگوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ کسی کی کردار کشی کرنا، کسی کے خلاف جھوٹ بولنا، کسی کے خلاف مہم چلانا۔۔۔ یہ سب کچھ قانون کے خلاف ہے اور یہ جرم ان تک محدود نہیں جو یہ کرتے ہیں بلکہ جو اس کو آگے بڑھاتے ہیں وہ بھی شریک جرم ہیں۔‘

اداکارہ مہوش حیات سے قبل کبریٰ خان اور رابعہ اقبال نے بھی عدالت سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ ان کی کچھ قابل اعتراض جعلی ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں۔

کیا آن لائن ہراسانی کو رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟

مہوش حیات اور کبریٰ خان تو سیلیبرٹیز ہیں۔ کیا عام خواتین میں ’سائبر ہراسمنٹ‘ یعنی آن لائن ہراسانی رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس کا جواب مثبت میں دیتے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے شعبے سائبر کرائم کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں 24 افراد کو ہراسانی اور کردار کشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جو خواتین کی نازیبا تصاویر شیئر کرتے تھے یا انھیں بلیک میل کرتے تھے۔

یہ گرفتاریاں ایف ائی اے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گجرانوالا، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی سرکلز نے کی ہیں۔

ایف آئی اے کراچی کے ایک اہلکار نے گذشتہ سال مقامی عدالت کو بتایا تھا کہ شہر بھر میں تقریباً 1500 شکایات اور انکوائریاں درج کرائی گئیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، جو سائبر ہراسمنٹ پر مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے، کی سنہ 2022 کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کو کل 4441 شکایت موصول ہوئیں، جن میں سے 4310 کیسز آن لائن ہراساں کرنے سے متعلق تھے۔

ادارے کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 میں ان شکایت کی تعداد صرف 904 تھی۔

ڈیجیٹل رائٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شکایات کرنے والی خواتین کی عمریں 18 سال سے 30 سال کی درمیان ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم عمر خواتین کو نشانہ بنائے جانے کا زیادہ امکان ہے۔

: مذید پڑھیں

ایسا ملک جہاں پیاز کی قیمت گوشت سے تین گنا زیادہ ہے

مزید پڑھیں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول ترین